Journey to China: Discovering the Secrets of a Rising Nation
- August 2, 2024
- 4:28 pm
When someone travels from one country and society to another, they gain many experiences and insights. They get a chance to closely observe different civilizations, cultures, people’s behavior, lifestyles, habits, manners, and morals. This allows them to form their own opinions about these nations. Every culture, civilization, and nation has its strengths and weaknesses, good and bad aspects. One nation that has made a significant mark in the world, reaching great heights of development, is China. Many people travel to China to uncover the secrets of its success. Despite its vast population, how did the Chinese solve their problems? Every student of development is eager to learn the answer.
There was a time when poverty in China was extreme, as illustrated by a conversation I had with a Chinese scholar. He described how the Chinese endured severe hunger and misery. I asked him why people in China eat various animals and insects. He explained that there was a time when everyone in China was very poor and hungry. People ate whatever they could find, with no regard for whether it was beneficial or harmful to their health. They even drank dirty, polluted water, leading to widespread diseases. To combat these diseases, they began drinking hot water, a practice that continues today, along with consuming a lot of green tea.
We often hear that the Chinese eat insects and bugs, but understanding the background of their hardships provides context. The scholar also mentioned that due to poverty and lack of business opportunities, many people turned to drugs to cope with depression. They used to consume large amounts of opium and spend their days in a daze, which only worsened their situation. Despite these challenges, the Chinese did not give up. They struggled against poverty and hunger, eventually making a name for themselves worldwide. Today, “Made in China” is a global brand, with their products reaching every corner of the world.
One reason for my trip to China was to witness this development firsthand. Another reason, stemming from a hadith we have heard since childhood, is to seek knowledge even if it means going to China. This suggests that the Chinese must have some valuable knowledge, art, or skill. Since China is far from the Hijaz and the Arabian Peninsula, this hadith encourages seeking knowledge even in distant places.
Traveling to different countries and not visiting China would leave my journey incomplete. The rapid development of China in every sphere of life is due to certain principles. Understanding these principles was one of my trip’s objectives, which I will share in future installments.
The story of my trip to China begins with a phone call from a friend, Zahid, who frequently visits China for business. He invited me to join him on his next trip, which included a stopover in Makkah and Madinah. I immediately accepted, eager for an opportunity to see China. Another friend, Kamran, often spoke of traveling to China, but Zahid’s offer was the first serious one I received.
After confirming with Zahid, I quickly bought the tickets, unaware of the lengthy process required to obtain a Chinese visa. Despite having a British passport, I had to visit the Chinese embassy four times and fulfill numerous requirements. Eventually, I received a three-month single-entry visa, while my friend Fazal Bhai received a two-year multiple-entry visa.
With our visas secured, we began our journey. We first traveled to Jeddah, then to Makkah, where we had the blessing of witnessing the changing of the Kaaba cover on the night of the 1st of Muharram. We performed Umrah and spent time in the Haram. After two days in Makkah, we moved on to Madinah for another two days before heading to Jeddah Airport for our flight to Guangzhou, China.
At the airport, we met a fan who kindly gave us Zamzam water. We decided to buy more Zamzam to share with people in China after Friday prayers, along with Ajwa dates from Madinah. Our flight to China faced a delay due to technical problems, but Saudi Airlines’ provision for prayer spaces made the wait more bearable. After a long journey of eleven hours, we finally arrived at Guangzhou Airport, exhausted but eager to explore China.
(To be continued…)
چین کا حیرت انگیز سفر
قسط: 1
انسان جب سفر کرتا ہے، کسی ایک ملک اور معاشرے سے دوسرے ملک اور معاشرے کی طرف جاتا ہے تو اسے بہت سےتجربات اور مشاہدات کا موقع ملتا ہے۔ مختلف تہذیبوں، ثقافتوں، لوگوں کی طبیعت و مزاج، رہن سہن، عادات و اطوار، اور اخلاق و اوصاف کو قریب سے دیکھنے کا موقع میسر آتا ہے، جس کی بنیاد پر وہ ان قوموں کے متعلق اپنا تجزیہ، اور رائے قائم کر سکتا ہے۔ ہر کلچر، تہذیب، اور قوم میں کچھ خوبیاں، اور خامیاں، اچھائیاں، اور برائیاں ضرور ہوتی ہیں۔ لیکن دنیا کی ایک ایسی قوم جو ایک دم دنیا میں اپنا نام پیدا کر دے، ترقی کی بلندیوں کو چھونے لگے، دنیا میں اپنا نام و مقام پیدا کرے وہ چائنیز قوم ہی ہے۔ انکی اس ترقی کے راز کو معلوم کرنے کیلئے لوگ چین کا سفر کرتے ہیں اور ان اصولوں کو معلوم کرنا چاہتے ہیں جن کی بنیاد پر چینی قوم آج اس مقام پر پہنچی ہے۔ چین کی آبادی بہت زیادہ ہونے کے باوجود چائنیز قوم نے اپنے مسائل کو کیسے حل کیا؟ اس سوال کا جواب ترقی کا ہر طالب جاننا چاہتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ چین میں غربت وافلاس کے علاوہ کچھ نہیں تھا، جس کا اندازہ ایک چینی عالم سے ہونے والی میری گفتگو سے لگا سکتے ہیں جو آئندہ سطور میں آرہی ہے، کہ چینی لوگوں کی زندگی کس شدید بھوک اور بد حالی سے گزری ہے۔ میری ایک چینی عالم سے ملاقات ہوئی، میں نے اس سے پوچھا کہ آپ لوگ کس طرح مختلف قسم کے جانور اور کیڑے مکوڑے کھا لیتے ہو؟ اس نے کہا کہ ایک زمانہ تھا جب چین کا ہر باسی انتہائی کسمپرسی کا شکار تھا۔ ہمارے ہاں اتنی غربت تھی کہ لوگ کھانے کیلئے ترستے تھے۔ جب شدتِ بھوک بڑھتی تو جسے جو چیز ملتی اسے کھا لیتا تھا۔ اسے اپنے پیٹ بھرنے کے علاوہ کسی جانور، کسی کیڑے مکوڑے سے کوئی غرض نہیں تھی، نا اس وقت اسے اس چیز کا خیال رہتا کہ کیا جو چیز میں کھا رہا ہوں، میری صحت کیلئے مفید ہے یا مضر ہے۔ گندگی اور آلودگی کا یہ عالم تھا کہ پینے کیلئے صاف پانی تک ہمیں میسر نہیں تھا۔ مجبوراً گندا اور آلودہ پانی پینا پڑتا تھا جس سے ہم لوگ بیماریوں کا شکار ہو جاتے اور یوں پورا چینی معاشرہ ان بیماریوں کی زد میں آجاتا تھا۔ کبھی تو وہ بیماریاں خطرناک حد تک پھیل جاتی تھیں۔ ان بیماریوں سے بچنے کیلئے ہم نے گرم پانی پینا شروع کر دیا اور آج تک چائنیز گرم پانی ابال کرپیتے ہیں۔ ٹھنڈا پانی کم ہی استعمال کرتے ہیں۔ گرم پانی کے ساتھ ساتھ گرین ٹی کا بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ ہم برسوں سے سنتے آرہے تھے کہ چائینیز حشرات الارض اور کیڑے مکوڑے بڑی آسانی سے کھا لیتے ہیں، لیکن اس سفر سے پہلے ہمیں اس کے پس منظر کا علم نہیں تھا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ چینی لوگ بہت زیادہ مقدار میں نشہ کرنے کے عادی تھے، کیونکہ جہاں غربت کی وجہ سے کوئی کاروبار نہ ہو، وہاں ڈپریشن ہوتا ہے، اور جہاں ڈپریشن ہو وہاں لوگ برائیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ لوگ مختلف قسم کے ایسے راستے اپناتے ہیں جس سے انہیں کچھ سکون ملتا ہو۔ اس ڈپریشن سے نجات کیلئے زیادہ تر لوگ نشے کا سہارا لیتے ہیں۔ چائنیز قومکی اسٹوری بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔ وہ لوگ بھی اپنے ڈپریشن کو کم کرنے کیلئے نشے کا بے دریغ استعمال کرتے تھے۔ بہت زیادہ مقدار میں افیم پی کر سارا دن پڑے رہتے تھے۔ جب آدمی کے پاس کوئی کام نا ہو اور سارا دن فراغت میں گزرتا ہو تو وہ آدمی یقینی طور پر بے چینی کا شکار ہوتا ہے اور اس کی زندگی کا ہر دن بڑی مشکل سے گزرتا ہے۔ ہر لمحہ انتہائی بے چینی کے ساتھ کٹتا ہے۔ لہٰذا، عام طور پر آدمی اس بے چینی سے چھٹکارا حاصل کرنے اور اپنے فارغ وقت کو گزارنے کیلیے نشے کی بری عادت میں پڑتا ہے۔ وہ یوں سمجھتا ہے کہ مجھے اس سے چین و راحت حاصل ہوگی۔ یہاں سے آپ اچھی طرح اندازہ لگا سکتے ہیں کہ چینی قوم کو کتنے مسائل کا سامنا تھا، لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ غربت، بھوک و افلاس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور دنیا میں اپنا نام بنایا۔ آج “میڈ ان چائنہ” ایک بڑا برانڈ بن چکا ہے، کہ ہر چیز چین میں بن رہی ہے، اور دنیا کے ہر خطے اور ہر ملک میں انکی مصنوعات پہنچ رہی ہیں۔
چین کے میرے اس سفر کی وجوہات میں ایک وجہ انکی اس ترقی کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا بھی تھا۔ دوسری وجہ جو سب سے اہم بھی ہے کہ بچپن سے ہی ایک حدیث سنتے آرہے ہیں کہ: ‘اطلبوا العلم ولو في الصين” علم حاصل کرو اگرچہ اس کیلئے چین جانا پڑے۔ اگرچہ بعض علماء کے نزدیک یہ حدیث ضعیف، ہے، لیکن فضائل کے باب میں ضعیف حدیث سے بھی استدلال کیا جاتا سکتا ہے۔ اگر ہم حدیث کو ضعیف تسلیم کر لیں تو اس سے بھی کم از کم اتنی بات تو ثابت ہوتی ہے کہ اس وقت چینی قوم کے پاس کوئی تو خوبی ہوگی جس کی بنیاد پر چین جانےکا کہا گیا۔ انکے پاس کوئی ایسا علم، فن یا ہنر ہوگا جس کی طرف اشارہ کیا گیا۔ ظاہر بات ہے کہ وہ کوئی دینی، یا قرآن وحدیث کا علم تو نہیں ہوگا، کوئی دنیاوی علم یا ہنر ہی ہوگا۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ چین حجاز اور جزیرۃ العرب سے بہت دور ہے، تو اس حدیث میں یہ بتایا گیا علم حاصل کرنے کیلئے جتنا دور جانا پڑے، چلے جاؤ۔
میرے چین کے سفر کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جب میرے جیسا آدمی دنیا کے مختلف ممالک کا سفر کر رہا ہو اور وہ چین نا جائے تو اسکا سفر نامہ نا مکمل اور ادھورا ہی رہتا ہے۔ کیونکہ اس وقت چائنیز نے جو ترقی کی ہے وہ دنیا میں قابل دید اور ایک عظیم کارنامہ ہے۔ جس تیزی سے انہوں نے چند ہی سالوں میں زندگی کے ہر شعبے، ہر میدان میں ترقی کی اور اپنا لوہا منوایا، وہ یقیناً کچھ اصولوں پر عمل کرنے کی مرہونِ منت ہے۔ انکی ترقی کے وہ اصول کیا تھے، جنہیں اختیار کر کے آج وہ اس مقام پر پہنچے؟ یہ جاننا بھی میرے اس سفر کے مقاصد میں شامل تھا۔ چائنیز کے ترقی کے اہم اصول اور راز آئندہ قسطوں میں آپ حضرات کے سامنے ضرور پیش کرونگا۔ چین کے میرے اس سفر کی اسٹوری بہت حیران کن ہے۔ ہوا یوں کہ لیسٹر شائر میں مقیم ہمارے ایک دوست، اور مسجد اقصی کے ایک سفر کے میرے ہم سفر زاہد صاحب کا اپنے کاروبار کے سلسلے میں چائنہ آنا جانا لگا رہتا ہے۔ اچانک انکا فون آیا اور وہ کسی شرعی مسئلے میں رہنمائی چاہتے تھے۔ جب مسئلہ پوچھ کر فارغ ہوئے تو گویا ہوئے کہ مفتی صاحب میں سعودی ایئر لائن سے چین جا رہا ہوں۔ راستے میں دو دن مکہ مکرمہ اور دو دن مدینہ منورہ میں اسٹے ہے۔ اس طرح عمرہ بھی کر لوں گا اور پھر جدہ سے گونزو، چین کیلئے روانہ ہو جاؤنگا، جہاں ایک ہفتے کے قیام کے بعد واپسی ہوگی۔ اگر آپ میرے ساتھ چلنا چاہیں تو مجھے خوشی ہوگی، اور وہاں پر میں نے ہر چیز کی بکنگ کی ہوئی ہے۔ جس ہوٹل میں میری رہائش ہوگی، آپ بھی ساتھ میں ٹھہر لینگے۔ جو سواری میں استعمال کرونگا وہ آپ کیلئے بھی ہوگی، اور کھانا پینا بھی ہم ایک ساتھ کر لینگے۔ اس طرح آپکا کوئی زیادہ خرچہ بھی نہیں ہوگا، میں نے اسکی یہ آفر ایک دم بغیر کسی غور و فکر کے فوراً قبول کر لی۔ میں تو اسی انتظار میں تھا کہ چائنہ کے سفر کی کوئی ترتیب بنے۔ میرے ایک دوسرے دوست کامران صاحب بھی اکثر چین آتے جاتے رہتے ہیں، میں انکے سامنے چین جانے کی خواہش کا اظہار کرتا رہا ہوں، لیکن وہ بڑی ہوشیاری سے ٹال مٹول کر دیتے تھے۔ کہتے مفتی صاحب ان شاءاللہ ضرور جائینگے۔ کبھی بھی کوئی سیریس آفر نہیں کی۔ کامران صاحب کا تذکرہ یہاں زاہد کی آفر کے تناظر میں ضمناآگیا، ۔
،بہرحال میں نے زاہد صاحب کو کہا کہ آپ جلدی سے میری ٹکٹ بھی بک کر لیں۔ زاہد سے بات کرنے کے بعد فضل بھائی سے اسی سلسلے میں بات ہوئی تو فضل بھائی بھی تیار ہو گئے۔ ہم نے ٹکٹیں تو بڑی عجلت میں خرید لیں لیکن مجھے اندازہ نہیں تھا کہ چین کے ویزے میں مجھے مشکل مراحل سے گزرنا پڑے گا۔ میرا خیال تھا کہ میرے پاس برٹش پاسپورٹ ہونے کی وجہ سے دنیا کے کسی بھی ملک میں جانے اور انٹر ہونے میں مجھے کسی قسم کی دشواری سامنا نہیں ہوگا۔ لیکن چین کی ویزہ ریکوائرمینٹ کی بہت لمبی فہرست پوری کرنے کے بعد ہی ملتا ہے، جس کیلئے انکی آن لائن ویب سائٹ پر پوری ڈیٹیل ڈالنے کے بعد اپلائی کرنا ہوتا ہے۔ پھر اس کے پرنٹ آؤٹ لیکر چین کی ایمبیسی جانا پڑتا ہے، اور وہاں تمام ڈاکومنٹس جمع کروانے ہوتے ہیں۔
میں دنیا کے مختلف ممالک کے اسفار کرتا رہتا ہوں مگر آج تک کسی ملک کی ایمبیسی جانے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ اگر کبھی جانا بھی ہوا ہے تو ایک ہی مرتبہ میں مسئلہ حل ہو جاتا ہے، لیکن چین کے ویزے کیلئے مجھے چار دفعہ چائنیز ایمبیسی جانا پڑا۔ کافی مراحل سے گزرنے کے بعد انتہائی مشکل سے مجھے ویزا ملا۔ میں نے اور فضل بھائی نے ایک سال کے ملٹیپل ویزے کیلئے اپلائی کیا تھا، جس کیلئے انکی تمام ریکوائرمینٹ بھی پوری کیں، لیکن انہوں نے مجھے صرف تین مہینے کا اور وہ بھی سنگل انٹری ویزہ دیا، اور فضل بھائی کو دو سال کیلئے ویزہ دے دیا۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ نے مجھ سے فیس ایک سال کے ملٹیپل انٹری ویزے کی لی ہے، اور ویزہ تین مہینے کی سنگل انٹری کا دیا ہے اور میرے ساتھی کو اتنی ہی فیس پر دو سال کا ملٹیپل ویزہ دے دیا۔ شاید آپ نے میرے پیسے کا استعمال کر کے انکو دو سال کا ویزہ دے دیا ہے۔ میری اس بات کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
چلیں، جیسے تیسے کر کے کافی دنوں کے بعد جب ویزہ ملا تو پریشانی ختم ہوئی، کیونکہ ہم نے ٹکٹیں اور ہوٹل بک کرا لیا تھا۔ جب چین کا ویزہ ملا تو ہمارا سفر اسٹارٹ ہوا۔ سب سے پہلے دیار حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب رخ تھا، سعودی ایئر لائن کے ذریعے جدہ پہنچے، اور پھر مکہ المکرمہ۔ دو دن مکہ میں رہے، اس دوران اللہ نے یہ بھی سعادت بخشی کہ یکم محرم الحرام کی رات کو غلاف کعبہ کی تبدیلی کا پر سحر منظر بھی دیکھا۔ یکم محرم الحرام کی رات حرم میں گزاری۔ انتہائی رش، اور مطاف جانے پر سختی ہونے کے باوجود اللہ کے فضل و کرم سے انہتائی آسانی کے ساتھ ہم مطاف کے اندر پہنچے۔ پہلی رات کو عمرہ کیا، طواف و سعی کرتے ہی وہ رات بسر کی، دوسری رات بھی حرم کے اندر ہی گزری، صرف تہجد کے وقت سے کچھ پہلے جب بھوک محسوس ہونے لگی تو حرم سے باہر نکلا اور فراز بھائی کی دعوت پر انکی میزبانی میں ان کے ساتھ کھانا کھایا۔ دو دن مکہ میں گزارنے کے بعد ہم مدینۃ المنورہ چلے گئے اور وہاں پر دو دن جوار رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بسر کرنے کے بعد ہم نے جدہ کیلئے ٹرین پکڑی۔ جدہ پہنچے، اور جدہ ایئرپورٹ کی طرف رخ کیا جہاں سے گونزو، چائنہ کیلئے ہماری فلائٹ تھی۔ ہم فلائٹ سے چار گھنٹے پہلے جدہ ایئرپورٹ پہنچ چکے تھے۔
ایئرپورٹ پر اوپر ایک اسٹور پر کچھ لینے کیلئے جب میں گیا تو وہاں پر ایک فین سے اچانک ملاقات ہوئی، جو بہت ہی اچھے انسان تھے۔ انہوں نے ہماری بڑی خدمت کی۔ انکے پاس زمزم کا ایک کین تھا جس سے ہمیں زم زم بھی پلایا۔ ہم نے سوچا کہ کیوں نا ہم بھی جدہ ایئرپورٹ سے زمزم کے کین خرید لیں اور چین جا کر جمعہ کی نماز کے بعد لوگوں کو زمزم پلا لیں۔ ہمارے پاس مدینۃ المنورہ کی عجوہ کھجور بھی موجود تھیں جو ہم نے مدینہ منورہ سے خریدی تھیں۔
جب ہم چین روانگی کیلئے سعودی ایئر لائن کے جہاز میں سوار ہوئے، اور جہاز نے رن وے پر اڑان بھرنے کیلئے دوڑنا شروع کیا تو اڑان سے کچھ ہی لمحات پہلے جہاز نے رن وے کی دوسری سائیڈ سے دوبارہ ٹرمینل کے طرف واپسی کا رخ کیا۔ اور اعلان کیا گیا کہ جہاز میں فنی خرابی ہونے کی وجہ سے یہ جہاز فی الحال اڑان بھرنے کیلئے موزوں نہیں۔ تمام مسافروں کو آف لوڈ کیا گیا، پھر دوسرے جہاز میں دوبارہ مسافروں کو سوار کیا گیا، اس پورے پروسیجر میں مزید چار سوا چار گھنٹے لگ گئے۔ سعودی ایئر لائنز کی ایک بات بہت ہی اچھی ہے کہ انکی ایئر لائنز میں نماز کی جگہ ہوتی ہے۔ جہاں پر سکون ماحول میں نماز ادا کی جا سکتی ہے۔ جہاز نے پھر اڑان لی اور گونزو کیلئے روانہ ہوا، اب ہمیں گیارہ گھنٹے کی طویل مسافت کا سفر طے کرنا تھا۔ آٹھ گھنٹے جدہ ایئرپورٹ پر انتظار اور گیارہ گھنٹے کے مسلسل فضائی سفر کو طے کر کے جب ہم گونزو ایئرپورٹ پہنچے تو انتہائی تھک چکے تھے۔
(جاری ہے۔۔۔)